قلب مستقیم کیا ہے اور اس کی علامات کیا ہیں ؟
آخری حصہ
تقریبا سب جانتے ہیں کہ سارا جسم دل کے گرد گھومتا ہے اگر دل سیدھا ہے تو تمام اعضاء بالیقین سیدھے ہوں گے اور اگر دل کی دنیا غیر آباد ہے یا دل ہی خدانخواستہ ٹیڑھا ہے تو پھر جسمانی اعضاءسے کوئی خیر صادر ہو گی ؟ اس کو آپ بھول جائیں کیونکہ جب ڈرائیور اور پائلٹ ہی ان ٹرینڈ ہو تو بس یا جہاز کا کیا بنےگا آپ بہتر جانتے ہیں ۔
باقی یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ دل کے راز کوئی نہیں جانتا سوائے علیم بذات الصدور کے تو اپنے آپ کو جانچنے کی کچھ علامات ہیں ان پر توجہ اور دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
لہذا آپ یہ غور کریں کہ اگر تو آپ کے دل میں اللہ تعالی کے اوامرو نواہی کی عظمت موجود ہے تو سمجھ لیں کہ گزارہ ہو جائے گا۔
اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے بندہ ناچیز عرض گزار ہے کہ ہر کام میں رضاء الٰہی مقدم ہو لہذا اگر کوئی عمل اگر خفیہ طریقے سے کیا ہے تو اس کو خفیہ رہنے دے کسی سے ذکر نہ کرے کیونکہ ذکر کے بعد وہ عمل خفیہ کی قسم سے نکل کر اعلانیہ کی حد میں داخل ہو جاتا ہے اب نئے سرے سے اس عمل کی جانچ ہو گی کہ اعلانیہ میں لانے کے پیچھے جذبہ کیا تھا؟
اگر تو جذبہ یہ نکلا کہ لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ ہم کیا کیا اور کیسی کیسی نیکیاں کرتے ہیں تو پھر اس عمل کے رائیگاں جانے میں کوئی ادنی سا شک بھی نہیں ہو سکتا اور یہ عمل ایسے ہو گیا جیسے اگر کوئی شروع سے ہی اس جذبے سے عمل کرے تو اس کے رائیگاں میں کیا شک ہو سکتا ہے؟لہذا جس طرح عمل کا شروع اس معاملے میں حساس ہے اسی طرح اس کا درمیان اور آخر بھی حساس ہے حتی کہ عمل سے فراغت کے بعد بھی اس کی حفاظت کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں یہ رائیگاں نہ ہو جائے ۔اب یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کوئی اس طرح کی ریا کاری کے بعد توبہ کر لے تو کیا اب اس کا عمل قابل قبول ہو جائےگا؟
اس جواب بعض نے یہ دیا ہے جب ایک بار کوئی عمل غیر اللہ کیلئے سرزد ہو جائے تو اب وہ توبہ کے باوجود بھی وہ واپس خالص اللہ تعالی کی رضا کیلئے نہیں ہو سکتا ہاں توبہ کا اتنا فائدہ ضرور ہو گا کہ اس ریا کاری پہ جو گناہ ملنا سزا ملنی تھی وہ کم ہوجائے گی یا معاف ہو جائے گی لہذا اب اس شخص کے حق میں وہ عمل بالکل غیر مؤثر ہو گیا نہ فائدہ ہوا نہ نقصان ۔
ہاں البتہ وہ عمل جو شروع میں تو خالص اللہ تعالی کی رضا کیلئے کیا تھا مگر بعد میں ریا کا خیال پیدا ہو گیا یا عمل کا کبر آگیا تو توبہ کرنے کے بعد اور شرمندہ ہونے کے بعد اب یہ عمل واپس اللہ تعالی کی رضا کیلئے کیئے جانے والے اعمال میں شمار ہو سکتا ہے۔
لیکن بعض حضرات کا اس موقع پر بھی یہ کہنا ہے کہ عمل دوبارہ کرنا پڑے گا منفی جذبات کے آنے کے بعد اب یہ واپس اپنی اصلی حالت پہ نہیں آسکتا۔
اگر غور کیا جائے تو یہ اختلاف رائے ایک اور مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے پیش آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی خدانخواستہ مرتد ہو جائے تو اس کےاعمال بے کار ہو جاتے ہیں لیکن کب سے ؟اس میں آرا مختلف ہیں اور دو حصوں میں تقسیم ہیں اور یہ دونوں روایات حضرت امام احمد بن حنبل ؒسے منقول ہیں
بعض علماء کی رائے ہے کہ مرتد ہوتے ہی سارے کے سارے اعمال ضائع اور بے کار ہو جائیں گے حالت ارتداد میں موت آئے پھر بھی نہ آئے تو پھر بھی ۔
لہذا اگر یہ دوبارہ سے حلقہ بگوش اسلام ہو تا ہے تو نئے سرے سے اعمال کرنا ہوں گے پہلے والے ختم ان کی کوئی حیثیت نہ رہی۔
جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ مرتد ہوتے ہی اعمال رائیگاں نہیں ہوں گےجب تک اس کو اسی حالت میں موت نہ آجائے لہذا اگر موت سے پہلے پہلے اگر وہ پھر سے اسلام قبول کرلے تو ان تمام اعمال کا اجر بحال ہو جائے گا بس اسی طرح سمجھ لیں کہ اگر کوئی بندہ نیکی کے بعد گناہ کرتا ہے جس سے اس کی نیکی بے کار ہو جاتی ہے پھر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے تو کیا اس پہلی نیکی کا اجر وثواب واپس ملے گا ؟ تو اس کا حل یہی ہے کہ ہو سکتا ہے مل جائے اور ہو سکتا ہے نہ ملے ۔
اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کافی دقیق ہے اور مشکل ہے جو بھی اس کے حل میں لگا ہے وہ ٹھیک سے حل نہیں کر پایا
ہاں جو بات زیادہ قرین قیاس اور صحیح لگتی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی اور برائی کا آپس میں مقابلہ اور معارضہ جاری رہتا ہے اور اس فیصلہ کن حیثیت اسے حاصل ہوتی ہے جو غالب آ جائےاور جو غالب آگیا اسی کا اعتبار ہوتا ہے گویا کہ اس کے مقابلے میں جو مغلوب ہوا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ کالعدم ہے۔
لہذاجس کی نیکیاں غالب آ گئیں تو یہ نیکیاں اس کی برائیوں کو ختم کر دیں گی اور جو گناہوں سے سچی توبہ کر لے اس کی توبہ بہت ساری نیکیوں کا ذریعہ بن جاتی ہے جو کہ گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں حتی کہ کبھی اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ان نیکیوں پہ غالب آجاتی ہیں جو برائی کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہیں۔
اس لئے جب توبہ پکی ہو جائے تو برائیوں کو اس انداز سے جلا کر راکھ کر دیتی ہے گویا وہ برائی کبھی تھی ہی نہیں کیونکہ مشہور مقولہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسے ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں اس کی تائید ایک حدیث پاک سے ہوتی ہے جو حضرت حکیم ابن حزام سے مروی کہ
قَد سَأَلَ النَّبیَّ ﷺ عَن عِتَاقِہِ وصِلَۃٍ وبِرٍّ فَعَلَہُ فِی الشِّرکِ ھَل یُثابُ عَلَیہِ ؟فَقَالَ النَّبیُّ ﷺ اَسلَمتَ عَلی مَا اَسلَفتَ مِن خَیرٍ
ترجمہ: حضرت حکیم ابن حزام ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ جو نیکیاں میں نے اسلام سے پہلے کی ہیں کیا ان کا اجر مجھے ملے گا؟تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم اپنی ان تمام حسنات سمیت مسلمان ہوئے ہو جو تم نے اس سے پہلے کی ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا کہ اسلام نے ان کی ان تمام نیکیوں کا اجر اس کو واپس دلا دیا جن کا اجر مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مل رہا تھا۔
اسی طرح جب کوئی مسلمان سچی توبہ کرتا ہے تو اس کے پہلے والے سارے گناہ جل کر ختم ہو جاتے ہیں اور نکیوں کا اجر بھی واپس مل جاتا ہے۔
برائی انسانی جسم کیلئے ایک اندرونی بیماری کی طرح ہے جیسا کہ بخار نزلہ زکام وغیرہ بیرونی بیماریاں ہیں تو جسمانی بیماری میں مبتلا مریض جب صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی وہ ساری قوت اور طاقت واپس آجاتی ہے جو اس بیماری کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی اسی طرح قلبی بیماری جب توبہ سے ختم ہوتی ہے تو حسنات واپس آجاتی ہیں۔
یوں سمجھیں کہ پرانی طاقت سے مراد سابقہ نیکیاں ہیں اور مرض برائی کی مانند ہے اور صحت وعافیت توبہ کی مانند ہیں تو جیسے بعض مریض ایسے جو واپس صحت کی طرف آ ہی نہیں سکتے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے اور بعض مریض ایسے ہیں جو واپس صحت مل جاتی ہے اور سابقہ قوت بھی بحال ہو جاتی ہے جسم کی قوت مدافعت کے مضبوط ہو نے کی وجہ سے اور بعض مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو صحت ملتی ہے تو پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا مدافعتی نظام بہت طاقت ور ہوتا ہے ۔بس یہی حال گناہ سے توبہ کرنے کا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
امید ہے کہ قارئین کو قلب مستقیم کے بارے میں ہماری یہ ادنی سی کوشش پسند آئی ہو گی۔
Leave a Comment