دلچسپ واقعات و حکایات

(قلب مستقیم کیا ہے اور اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ (حصہ چہارم

کہ جس قدر لگن اور اخلاص کے ساتھ احکام الٰہی کو پورا کرے گا اسی کے بقدر یہ اعمال درجات کی بلندی اور گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں

قلب مستقیم کیا ہے اور اس کی نشانیاں کیا ہیں؟

حصہ چہارم

جی قارئین  تو ہمارا موضوع ہے قلب مستقیم یعنی دل کا سیدھا پن  دل کیسےہوتا ہے اور اس کی کیا نشانیاں ہیں ؟جس سے معلوم ہو سکے کہ دل میں کہیں خدانخواستہ کوئی کجی تو نہیں؟دل کے معاملات کو براہ راست جاننا تو اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کیلئے ممکن نہیں  ہاں کو کچھ ظاہری علامات ہیں جن سے اندازہ ہو سکتا ہے  پچھلی پوسٹوں میں اس بات کا ذکر تھا کہ اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کی تعظیم اگر دل میں ہے تو سمجھ لیں کہ دل کا راستہ سیدھا ہے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہو ئے کہتا ہوں کہ جس قدر لگن اور اخلاص کے ساتھ احکام الٰہی کو پورا کرے گا اسی کے بقدر یہ اعمال درجات کی بلندی اور گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں اس قانون کی وجہ سے ایک عام اشکال جو کیا جاتا ہے جو  حدیث میں آتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں

صَومُ یَومِ عَرفَۃَ یُکفِّرُ سَنتَینِ ویَومِ عَاشُورَا یُکفِّرُ سَنۃً

ترجمہ: یوم عرفہ یعنی ۹ ذوالحج کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور یوم عاشور یعنی ۱۰ محرم کا روزہ ایک سا ل کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔

قلب مستقیم پر اٹھنے والا سوال

اگر کوئی مسلمان ایک ہی بار میں دونوں روزے رکھ لیتا ہے یعنی ۹ ذوالحج اور ۱۰ محرم  کا تو ایک سال میں یہ روزے تین سال کا کفارہ کیسے بنیں  گے؟اور اگر وہ ہر سال  یہ روزے رکھنے کی عادت بنا لے تو کیسے ممکن ہے کہ ہر سال تین سال کے گناہ معاف ہوتے رہیں؟

 قلب مستقیم پر اٹھنے والے سوال کے جوابات

جواب  اول

 اس سوال کا ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے کہ کفارہ بنیں گے اگر گناہ ہوئے تو ،ورنہ یہ درجات کی بلندی کا سبب بن جائیں گے اور درجات کی بلندی کی کوئی حد نہیں ہے اگر کو ئی بالفرض ایک ہزار سال تک بھی یہ روزے رکھتا رہے تو اس کے درجات بلند ہوتے رہیں گے کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ اب درجات کی بلندی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ لاکھوں سا ل کے روزے بھی درجات کی بلندی کو ختم نہیں کر سکتے۔

جواب دوم

 بھی بعض حضرات نے دیا کہ یہ روزے تین سال کا کفارہ تو تب بنیں گے  جب ان میں اخلاص اور خشوع اس قدر ہو کہ کمی کی کوئی گنجائش نہ رہے یعنی قبولیت کی شرائط پہ پورا اتر سکیں لیکن  اگر اخلاص ہی میں کمی ہو یا خشوع ناقص ہو تو پھر یہ عمل کیسے مکمل کفارہ بن سکتا ہے؟ بلکہ یہ کفارہ تو بنے گا لیکن ناقص طریقے سے بنے گا اور تین سال کے گناہوں کا کفارہ بننے کے باوجود بھی مزید کفارہ بننے کی گنجائش رہے گی بلکہ یہ امکان بھی موجود ہے اور اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس عمل میں خدانخواستہ ریا پیدا ہو جائے لوگوں کودکھانے کا جذبہ پیدا ہو جا ئے یا تکبر آ جائے یا یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ جو مجھے اچھی نظر سے دیکھے گا اور میری تعظیم کرے گا میں بھی اس کی تعظیم کروں گا اور جو میرے اس عمل کی وجہ سے مجھے کوئی مقام اور مرتبہ نہ دے میں بھی اسےکچھ نہیں سمجھوں گا بلکہ الٹا اس کو حقیر سمجھنے لگ جائے تو یہ عمل ہی ضائع ہو جائے گا چہ جائیکہ کفارہ بن سکے ۔

اب یہ مت سوچنے لگ جانا کہ بھلا عمل بھی ضائع ہو سکتا ہے؟جی ہاں عمل بھی ضائع ہو سکتا ہے بلکہ ہو تا ہے جیسا کہ بعض آیات کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے اور عمل کو بے کار کرنے والی چیزیں تو بے حد وحساب ہیں اسی لئے تو عارفین کہتے ہیں کہ عمل کو کرنا اتنا اہم نہیں جتنا اس کو سنبھالنا اہم ہے۔ 

جو چیزیں عمل کو ضائع کرتی ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک ریاکاری اور دکھلاوہ ہے اسی طرح اس عمل کا سنت کے طریقے پر نہ ہونا ہے  اور عمل کرکے گویا اللہ تعالی  کی ذات پر احسان چڑھا دینا کہ میں نے یہ کردیا وہ کردیا پھر بھی میرا کام نہیں بنا  توکیوں نہیں بنا؟

اسی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اس ارشاد باری تعالی میں

یَااَیُّھَاالَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنِّ وَالاَذٰی

ترجمہ: اے ایمان والو !اپنے دیئے ہوئے صدقات کو احسان جتلا کر ضائع نہ کرو۔

دوسری جگہ ارشاد ہے

یَااَیُّھَاالَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرفَعُوا اَصواتَکُم فَوقَ صَوتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجھرُوا لَہ بِالقَولِ کَجَھرِ بَعضُکُم لِبَعضٍ اَن تَحبَطَ اَعمالُکُم وَاَنتُم لَا تَشعرُونَ

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اور رسول اللہ ﷺ کو ایسے بلند آواز سے مخاطب نہ کرو جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمھیں پتہ بھی نہ چلے۔

اس آیت سے آپ کو کچھ سمجھ آیا؟ نہیں ؟ تو میں سمجھا دیتا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات کرنا یا آنحضرتﷺ کو عامیانہ انداز میں مخاطب کرنا گناہ تو ہے لیکن کفر نہیں ہے پھر بھی اس سے اعمال بے کا ر ہو نے کا خدشہ ہے تو سوچو کہ جو رسول اللہ ﷺ کے دین کے مقابلے میں غیر کو ترجیح دے تو اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟جو آنحضرت ﷺ کی سیرت پر اور آپ ﷺ کے اقوال پر غیروں کے طور طریقوں کو ترجیح دے تو اس کا کیا بنے گا؟کیا اس کے عمل ضائع نہیں ہوں گے ؟ہو سکتا ہے ہو جائیں اور اسے پتہ بھی نہ چلے؟

اللہ کے رسول ﷺ کا ایک فرمان بھی اس مضمون کی تائید کرتا ہے ذرا پڑھیں اسے

مَن تَرَکَ صَلٰوۃَ العَصرِ فَقد حَبِطَ عَمَلُہ

ترجمہ: کہ جو عصر کی نماز چھوڑ دیتا ہے یے اس  کا عمل بے کار ہو جاتا ہے۔

اماں جی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ایک قول بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے د یکھیں حضرت زید بن ارقم ؓ کو کہلا بھیجا کہ

 اِنَّہُ قَد اَبطلَ جِھَادَہ مَعَ رَسُولِ اللہ ﷺ اِلَّا اَن یَتُوب َ

ترجمہ: کہ یہ جو تم نے ایک خاص قسم کی بیع کی ہے سودا کیا ہے جو شریعت کے اصولوں سے بلکل ہٹ کر ہے اس کی وجہ سےتمہارا وہ جہاد جو تم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا تھا بے کار ہو گیا جب تک توبہ نہیں کرتےہو   ۔

کیا سمجھے؟ جو خرید وفروخت کا سودا حضرت زید بن ارقم ؓ نے کیا تھا کیا وہ کفر تھا؟ العیاذ باللہ ہرگز نہیں وہ صرف ایک ناجائز عمل تھا  اوربس ۔لیکن پھر بھی زندگی کا سب سے بڑا عمل جو کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ جہاد تھا وہ ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

اس لئے ضروری ہے کہ بندہ وقتا فوقتا اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے اور جانچ کرتا رہے کہ کہیں کوئی بات ایسی تو نہیں سرزد ہو گئی جس سےحبط عمل کا خطرہ ہو لہذا مکمل پہرہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عمل وجود میں آنے کے بعد محفوظ بھی ہو سکے کیونکہ عمل کرنا جتنا اہم ہے اس کو محفوظ رکھنا اس سے بھی اہم ہے۔

جواب سوم   

یہ ہے کہ یہ میرا اور آپ کا کام ہی نہیں ہے کہ ہم یہ بات پکڑ کے بیٹھ جائیں کہ کفارہ کیسے بنے گا ؟جبکہ اصل بات یہ نہیں ہے کہ کیسے بنے گا؟ بلکہ یہاں اصل بات یہ ہے بنے گااور ضرور بنےگا ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ مجھے اورآپ کو بظاہر سمجھ نہ آئے کہ کیسے بنے گا؟ تو یہ تو ہماری عقل ناقص ہونے کا نتیجہ ہے بھلا سوچیں کیا ہم رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عقل مند ہیں ؟ ہرگز نہیں  یا ہمارے پاس معلومات کا جو ذریعہ ہے وہ آنحضرت ﷺ کے پاس پائے جانے والے ذریعے سے زیادہ طاقت ور ہے ؟ نہیں نا؟تو پھر اوکھلی میں سر دے کر خواہ مخواہ گناہ گار بننے کی کیا ضرورت ہے؟ جس نے وعدہ کیا ہے وہ ضرور دے گا ہمارا کام ہے عمل کر کے اس کا حق دار بننا نا کہ اس تحقیق میں لگے رہیں کہ یہ کیسے ہو گا ؟ وہ کیسے ہو گا؟

واللہ اعلم بالصواب

قلب مستقیم کے بارے میں باقی بات اگلی پوسٹ میں ہو گی۔

Leave a Comment