سبق آموز نصائح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلا
اے میرے پیارے بھائی گناہ انسان کے دل پر پردا ڈال دیتے ہیں اور جب انسان کے دل کا شیشہ کالا ہو جائے یا میلا ہو جائے تو اس میں ھدایت کا چہرہ صاف نظر نہیں آتا اور جس نے گناہ کا نقصان پہچان لیا اس کو ندامت کا خوف ضرور لاحق ہو گا اور وہ گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش کرے گا۔
دیکھیں کتنی سبق آموز نصائح ہیں اس میں
دوسرا
اے گناہوں میں پڑے ہوئے انسان اے گناہوں میں لتھڑے ہوئے ابن آدم کہاں ہیں تیرے وہ آنسو جو اللہ تعالی کے خوف سے جاری ہوتے تھے اے گناہوں کے قیدی اپنے سابقہ زندگی میں کیے ہوئے گناہوں کو یاد کرکے رویا کر افسوس ہے تیرے لیے کہ موت دروازے پ آچکی ہے اور ابھی تک تیاری مکمل نہیں ہے تیری ،اور حسرت وندامت ہے تیرے لیے کہ جب کبھی تمھیں توبہ کیلئے بلایا جاتا تھا تو تونے مثبت جواب نہیں دیا اور تو اس وقت کیا کرے گا جب موت کا بلاوہ آئے گا اور تو ابھی تیار نہیں ہوگا کیا تو وہی نہیں ؟ جس نے گناہ کا ارتکاب کرنے میں جلدی کی اور اور اپنی حفاظت نہ کی ؟جبکہ لازم تھا آخرت کی زندگی کو سامنے رکھا جاتا اور معصیت سے اپنی حد تک بچا جاتا؟مگر افسوس تو ایسا نہ کر سکا
غور کریں کس قدر سبق آموز نصائح ہیں
تیسرا
کسی بندے یا انسان کیلئے حسرت و افسوس کا مقام ہے کی گناہ تو دن بدن بڑھتے جائیں اور توبہ استغفار کم ہوتا جائے اور جیسے جیسے قبر کے قریب ہوتا جائے ویسے ویسے طبیعت میں فتور وار نافرمانی کا جذبہ بڑھتا جائے اور مضبوط ہوتا جائے
اس قول میں کس قدرسبق آموز نصائح ہیں
چوتھا
یاد کر اے انسان وہ کونسی ذات ہے جس کی جب تم اطاعت کروتو وہ تمہیں فائدہ پہنچائے اور جب تم شکر گزار بن کے آؤ تو وہ نعمت میں اور اضافہ کر دے،اور جب تم اس کی خدمت کرو یعنی دین کی مدد کرو تو وہ تمھارے دل کی اصلاح کرے اور درست کرے
پانچواں
اے غافل انسان تیرے پاس تیرے اپنے پاس سےکیا خبر ہے ؟اورتیرے پاس تیرے اپنے بارے میں کیا معلومات ہیں؟اور تو اپنے بارے میں کیا جانتا ہے سوائے اس کے کہ بھوک لگی تو کھانا کھا لیا اور پیٹ غصہ کر لیا جھگڑا کر لیا تو پھر کس خصوصیت کی وجہ سے جانوروں سے الگ سمجھتے ہو اپنے آپ کو؟ یہی کام تو چوپائے جانور بھی کر لیتے ہیں لھذا سوچ کہ انسان اور جانور میں بہت سی چیزیں مشترک ہو نے کے باوجود فرق کس خصوصیت کی وجہ سے ہے اور وہ خصوصیت و وجہ آپ میں پائی جاتی ہے؟ اس قول میں کتنی کس قدرسبق آموز نصائح ہیں
چھٹا
اے انسان تعجب ہے تجھ پر کہ جب تو اچھا خط دیکھتا ہے تومتأثر ہو جاتا ہے اور خوش ہوتا ہے اورکاتب کی خوبی دیکھ کر مدھوش ہو جاتا ہے اور دوسری طرف تم روزانہ اللہ تعالی کی قدرت کے خطوط دیکھتے ہو اور بنانے والے کو پہچانتے نہیں ہو؟اگر تم اس جہان کی کاری گری دیکھنے کے باوجود بنانے والے کو پہچان نہیں سکتے ہو تو پھر تعجب ہے تم پر اور تم بھی تعجب کرو کہ کیسے تیری بصیرت اندھی ہو گئی ہے ظاہری بصارت کے صحیح ہونے کے باوجود۔اس میں کس قدرسبق آموز نصائح ہیں
ساتواں
اے وہ انسان جس کی جوانی کمزور ہو چکی اور نامہ اعمال گناہوں سے بھر چکا ہے کیا تجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ جب اعضاء کو گواہی کیلئے کہا جائے گا اور ان سے گواہی طلب کی جائے گی تو وہ بولیں گے اور سب کچھ بتائیں گے ،تجھے یہ خبر بھی نہیں ملی؟ آگ گناہ گاروں کیلئے پیدا کی گئی ہے اور ہر اس چیز کو جلا ڈالے گی جو اس میں ڈالا جائے گا اور یاد کر اس بات کو کہ توبہ تجھے اس آگ سے دور کر دے گی اورندامت کے آنسو اس کو بجھا دیں گے
اللہ اکبر یہ باتیں کس قدرسبق آموز نصائح اپنے اندر رکھتی ہیں
آٹھواں
پوچھو ذرا قبروں سے ان میں رہنے والوں کے بارے میں اورقبرکی لحدوں سے خبر لو جسموں کا کیا بنا؟ وہ تمھیں زبان حال سے بتائیں گی کہ قبر کی رہائش بڑی سخت ہے اور تمھیں خبر دیں گی کہ حسرت و افسوس نے قبر میں رہنے والوں کے ٹھکانے کو بھر دیا ہے اور قبر کے مسافر یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش ایک دفعہ واپسی کا موقع مل جائے، پس اے غافل نصیحت حاصل کر اور بار بار کر
نواں
اے وہ شخص جس سے اعمال کا مطالبہ کیا گیا ہے ،اوراے وہ بندہ جس کے اعمال کا حساب ہوگا اور جس کے سارے اقوال لکھے ہوئے ہیں اور جو تمام احوال کا حساب و کتاب رکھتا ہے تیرا اس سے غافل ہو جانا اور بھول جانا ایک بہت ہی رجیب وغریب معاملہ ہےاس قول میں کس قدرسبق آموز نصائح ہیں
دسواں
یقینا قرآن پاک میں بیان ہونے والی عبرتیں اور نصیحتیں لوہے کو بھی پگھلا دیتی ہیں اور سلیم الفطرت لوگوں کی عقول کیلئے ہر لمحہ اس میں نئی وعید اور ڈانٹ ڈپٹ ہے اور منور دلوں کیلئے ہر روز اس میں گناہوں سے رکنے کا اشارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ غافل دل اس کی تلاوت تو کرتا ہے لیکن مستفید نہیں ہوتا
گیارواں
حضرت بشر حافی رحمہ اللہ راتوں کو بہت زیادہ جاگنے والے تھے کسی نے پوچھا کی حضرت اتنا زیادہ کیوں جاگتے ہیں؟ تو آپ نے کہا مجھے اس بات کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اللہ کا امر آئے اور میں سو رہا ہوں اس لئے میں کافی کم سوتا ہو
بارواں
جو اس بات کا تصور یا خیال کرتا ہے کہ محنت ومشقت ختم ہو جائے گی لیکن اس محنت ومشقت کے ساتھ ہونے والی حمد وثناء ہمیشہ باقی رہے گی اس کیلئے اس محنت ومشقت میں مبتلا ہونا بہت آسان ہو جاتا ہے،اور جو یہ فکر کرے کہ جن لذتوں کو پانے کیلئےگناہ کیے جاتے ہیں وہ لذتیں تو ایک دن ختم ہو جائیں گی لیکن ان گناہوں کی عار اور شرمندگی ہمیشہ رہے گی اس کیلئے ان گناہوں کا چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے اور بات یہ ہے کہ انجام دیکھ کر گناہوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کوئی روشن بصیرت والا ہی کر سکتا ہےاس قول کس قدرسبق آموز نصائح ہیں
تیرہواں
تعجب ہے اس پر جو فنا ہو جانے والے جہان یعنی(دنیا) کوترجیح دیتا ہے باقی رہنے والے جہان یعنی( آخرت) پر اور گہرے بڑے سمندر کو بیچ دیتا ہے ایک چھوٹی سی نہر کے بدلے اور گدلے گھر کو ترجیح دیتا ہے صاف ستھرے محل پر اور بیماری کو پسند کرتا ہے صحت و عافیت پر
الحمد للہ آج ہم نے بہت سی سبق آموز نصائح پر مشتمل بہت سی باتیں سیکھی ہیں
Leave a Comment